تحریر: محمد شیخ جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی | کربلا کے عظیم سانحہ کے بارے میں دنیا کے محقیقین نے کئی جہتوں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ان میں سے ایک موضوع ، شہدا کربلا کے صفات اور خصوصیات ہیں جسکے بنا پر وہ دوسروں سے ممتاز قرار پائے ہیں اس تحریرمیں شہدا کربلا کے کچھ نمایاں خصوصیات ذکر کیا گیا ہے جسے مورخین اور دانشواروں نے بیان کیا ہے۔
شہدائے کربلا امام حسینؑ کے ان ساتھیوں کو کہا جاتا ہے جو سن 61ھ روز عاشورا کو واقعہ کربلا میں لشکر عمر سعد کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے۔ شہدائے کربلا کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر تاریخی منابع میں روز عاشورا امام حسینؑ کے ساتھیوں کی مجموعی تعداد 72 افراد ذکر کرتے ہیں ۔مشہور قول کی بنا پر ان میں سے 18 افراد بنی ہاشم سے جبکہ باقی افراد دوسرے قبائل سے تھے ۔اسی طرح اس واقعے سے مربوط منابع کے مطابق اس جنگ میں امامؑ کی فوج کے سوارہ نظام کی تعداد 32 اور پیادہ نظام کی تعداد 40 تھی ۔انکے علاوہ دوسرے منابع میں درج ذیل تعداد بیان ہوئی ہے:مسعودی: عاشورا کے روز امام حسین ؑ کے ساتھ شہید ہونے والے افراد کی تعداد 87 تھی ۔سید بن طاووس: اصحاب حسین ؑ، 78 نفر تھے ۔اور خود امام حسین ؑ کے ساتھ 79 نفر ہونگے۔علامہ مجلسی نے محمد بن ابی طالب سے نقل کیا: انکی تعداد 82 افراد تھے ۔امام باقر ؑ سے منقول ہے کہ 45 سوار اور 100 نفر پیاده تھے ۔عمر سعد اور شمر کے حکم پر امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں کے سروں کو ان کے بدن سے جدا کیا گیا۔[9] شیخ مفید کتاب ارشاد میں شہدائے کربلا کے سروں کی تعداد 72 سر ذکر کرتے ہیں۔
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اسلامؐ کے ساتھ جہاں مقداد ،سلمان ، ابوذر وحضرت امیرالمومنینؑ جیسے جانثار صحا بی تھے وہیں وہ افراد بھی تھے جو رسولؐ کے پہلو سے پہلو ملاکر بیٹھتے تھے اور دشمن کی تلوار وں کی آنچ سے دور بھاگتے تھے اور دشمن سے ساز باز کر لیتے تھے ،تاریخ نے ان کے شکست خوردہ قدموں کے نشانات اپنے صفحات میں محفو ظ کر لیے ہیں وہ سکون کے اوقات میں امیدیں دلا تے تھے کہ وقت آنے پر انکی ایمانی قوت اور خلوص وفا کے جو ہر کھلیں گے لیکن دل کی گہرائیوں میں یہ ارادہ چھپائے رکھتے تھے کہ نعوذ باللہ اگر رسول جنگ میں شھید ہو گئے تو وہ الٹے پاؤں اپنے آبا ئی دین کی طرف پلٹ جائیں گے ان کا سارا جوش وخروش مادی مفاد کے گرد گومتا تھا رسولؐ جنگ کی حالت میں ہوتے ساتھیوں کو پکار تے لیکن یہ لوگ بھاگ کھڑے ہو تے اور پہاڑوں پر پناہ لیتے تھے یہ لوگ دنیا پرستی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے یہ میرے نہیں یہ صریح قرآن کے الفاظ ہیں۔
لیکن امام حسین ؑ کے ساتھ جو بچے جوان اوربوڑھے تھے وہ سب لوگ ایک مقصد کو سامنے رکھے ہوئے تھے امام حسین ؑ نے اپنے سا تھیوں کے انتخاب میں انتہائی اہتمام سے کام لیا تھا مختلف قبیلوں ، مختلف شہروں سے مختلف صلاحیتوں کے افراد کا انتخاب ایک خاص مصلحت پر مبنی تھا۔حکو مت وقت عالموں ، فقیہوں ،ادیبوں ،عبادت گزاروں ، بہادروں مزدوروں اور کسا نوں کو در باری مقاصد کیلئے ایک خاص سانچے میں ڈالنا چا ہتی تھی تاکہ یہ لوگ کسی مقصد کیلئے نہ جئیں خود اپنے لیئے انہیں زندگی کا کوئی شعور نہ ہو بلکہ انکی تمام صلا حیتیں اور ساری کوششیں حکو مت کے مفاد کیلئے وقف ہوں جن لوگوں میں اجتماعی اور دینی زندگی کے شعور مردہ ہوچکا تھا جنہیں حقیقی آزادی کی بھوگ تھی ان لوگوں کو حسین ؑ نے چن چن کر اپنے ساتھ لیا خط بھیج کر بلایا مگر جو لوگ زند گی میں کوئی مقصد نہیں رکھتے تھے جو آز مائشوں کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے تھے انہیں الگ کرنے میں اس قدر اہتمام کیا جس قدر ان لو گوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کی ،جو کربلا کیلے موزوں تھے دنیا نے حسین ؑ کے انتخاب کی کامیا بی دیکھ لی ان وفا داروں نے جو عہد کئے تھے اس پر وہ اس وقت تک قائم رہے جب تک آخری سانس باقی رہی یقیناًیہ لوگ حب دنیا اور دنیا پرستی سے دور تھے وہ مولا کے کلام ’’دنیا ہر برائی کی جڑہے‘‘ کا مفہوم اچھی طرح سمجھ گئے تھے اور واقعی مومن تھے ،حق وباطل کو پہچانتے تھے اور انکو یقین حاصل ہو چکا تھا کہ حق پرستی کا نتیجہ کیا ہو گا اور باطل پرستی (دنیا) کا انجام کیا ہو گا شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے اسی چیز کو یو ں بیان کیا ہے:
کافر ہو تو تلوار پہ کر تا ہے بھروسہ /مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
اس مختصر مقالہ میں ابتدا میں امام حسین علیہ السلام کے تین صفتوں اور خصوصیتوں کے نام ذکر کریں گے پھر ان کا جائزہ لیں گے :
۱ ۔ خدا پرستی ۔۲۔ بصيرت اورشعور ۔۳۔ امام وقت سے وفاداری ۔
خدا پرستی : امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی پہلی خصوصیت خدا پرستی ہے۔ اگر انسان خدائی بن جائے تو وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ شہدا کربلا کی زیارت نامہ میں پرھتے ہیں : أشهد أنّکم جاهدتم فی سبیل اللَّه، الذَّابُّونَ عَنْ تَوْحیدِ اللَّهِ ؛ ۔عاشورا کے دن اور کربلا کے تمام حوادث کی فضا میں [ رِضَي اللهِ رِضَانَا اَهلُ البيت ] کا نعرہ گونج رہا تھا نیزامام (ع) اور اس کے اصحاب اور دوستوں نے اپنے ساتھ دنیا اور نفس کا ہر طرح کا رابطہ قطع کیا تھا اور حق کے ساتھ پوری طرح مل گئے تھے ۔ امام حسين (ع) نے مدینہ سے نکلتے وقت ، خطبہ دیتے ہوئے فرمائے تھے [پروردگارا ! میں تیری رضا پر راضی اور تیرے فرمان پر تسلیم ہوں ! ، تیری قضا کے سامنے میں صبر کروں گا ! ، اے وہ خدا کہ تیرے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے ! ، اے بے پناہ لوگوں کی پناہ (و امید) !] ۔
حضرت زينب (س) نے واقعہ کربلا کے بعد سيد الشهدا (ع) کے پارہ پارہ بدن اطہر کے کنارے میں یہ آواز بلند کی :[اللهم تَقَبَّل مِنَّا هَذا القُربان] ؛ خدايا !، یہ قربانی ہماری طرف سے قبول فرما ۔اسی طرح حضرت زينب(س) نے ابن زياد کے ساتھ گفتگو کے وقت فرمایا:[ مَا رَاَيتُ اِلا جَمِيلاً ] ؛ میں نے حسن (اچھائی اور بہتری) کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا !۔ “حضرت ہانی” کے زيارتنامہ میں ہم پڑھتے ہیں: [بَذَلتَ نَفسَك فِي ذَاتِ اللهِ وَ مَرضَاتِهِ ؛ ] اے وہ شخص جس نے اپنی جان خداوند کی راہ ِ رضا میں فدا کی! ۔
بصيرت اور شعور :
بصیرت اور شعور امام حسیین علیہ السلام کے اصحاب کے نمایاں صفات میں سے ایک ہے جس بارے میں خود امام فرماتے ہیں: [وَ بَذَل مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبادَکَ مِنَ الْجَهالَةِ و حَیْرَةِ الضَّلالَةِ ]۔
جناب هلال بن نافع ” شب عاشورا امام حسين(ع) کی فرمائشوں کے بعد کھڑا ہوا اور کہنے لگا :[وَ اَنَّا عَلَي نِياتِنا وَ بَصائِرِنا ] یقیناً ہم اپنے اردوں اور بصیرتوں پر ثابت قدم ہیں ۔ جناب عابس بن شبيب بھی جب امام حسين (ع) کی خدمت میں پہنچا تو کہا :سلام ہو تم پر اے اباعبدالله ، خدا، گواه بناتا ہوں کہ میں تمہارے اور تمہارے والد کے دین پر ہوں! اورجناب بُرَير” دشمن کے سپاہی سے گفتگو کے وقت اسے کہتے ہیں :الحمدُ اللهِ الذي زَادَنِي فِيكُم بَصيرَه ؛ اس خدا کا شکرجس نے تم لوگوں کے بارے میں میری بصيرت اور شناخت میں اضافہ فرمایا ۔
امام وقت سے وفاداری
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ وقت کے امام کے حقیقی پیروکار تھے تاریخ کربلا کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انصار حسینی ؑ نے اہلبیت ؑ رسول اللہ سے مخاطب ہوکر کہا ’’ ہماری جانیں آپ پر قربان ہمارا خون آپ پر نثار ہماری روحیں آپ پر فدا ،خدا کی قسم جب تک ہمارے دم میں دم ہے آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا،ہم نے تلواروں کیلے اپنی جانیں اور نیزوں کیلے اپنے جسم ہبہ کر دیے ہیں ہم آپ کے سامنے موت کا شرف حاصل کریں گے جس نے آج نیکی کی اور آپ کو موت سے بچالیا اس نے کامیابی حاصل کی ہے۔
مسلم ابن عو سجہؒ نے کہا :’’ میں آپ کا ساتھ اس وقت تک نہیں چھوڑونگا جب تک میرا نیزہ اعداءکے سینے میں نہ ٹوٹ جائے میں انہیں اپنی تلوار سے ماروں گا اور اگر میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں رہیگا تو دشمنوں پر پتھر برساؤں گا ، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے ۔
جب حضرت حبيب بن مظاہر ، حضرت مسلم بن عوسجه کے سرہانے پر آگئے اور اسے جنت کی بشارت دی ، اس نے مرتے وقت جناب حبيب ابن مظاہر سے وصیت کی ؛ ” امام سے (وفا کرنے کا ) اپنا ہاتھ نہیں اٹھانا اور اس کی راہ میں فوت ہوجانا ” ۔
امام عالی مقام کے یار و دوستوں کی اسی اطاعت و وعدہ وفائی کی وجہ سے حضرت مسلم بن عقيل (ع) کے زیارت نامہ میں ہم پڑھتے ہیں :وَ اَشهَدُ اَنَّكَ وَفَيتَ بِعَهدِاللهِ ؛ اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک تم نے خداوند کے ( ساتھ کئے ہوئے ) وعدے کی وفاداری نبھائی ۔حضرت عباس بن علی (ع) کی زيارت میں بھی اس طرح آیا ہے: اَشهَدُ لَكَ بِالتَسلِيمِ وَ التَصدِيقِ وَ الوَفاء وَ النَصيحَه لِخَلَفِ النَّبي ؛ جو فرزند پيغمبر(ص) کے بہ نسبت حضرت ابوالفضل (ع) کی اطاعت کرنے ، تسليم ہونے اور اس کی تصديق و تائید کرنے کی واضح دلیل ہے ۔
حضرت ابوالفضل (ع) کی وفاداری اتنی بلندی پر پرواز کررہی ہے کہ وہ حضرت شب عاشورا امام حسين (ع) سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں :خدا کی قسم ! ، ہزگز تم سے جدا نہیں ہوجائے گے ! ، ہماری جان تمہاری جان پر فدا ہوں ! ، اپنےخون آلود نرخروں ، حلقوں ، ہاتھوں اور چہروں سے تمہاری حمايت کرے گے اگر چہ مرجائے گے ، اپنے وعدے کی اور جو بھی ہمارے ذمہ ہے ، (اس کے ساتھ ) وفا کریں گے ۔ ” فَاِذا نَحنُ قَتَلنَا بَينَ يَدَيكَ نَكونُ قَد وَفَينا لِرَبِّنا وَ قَضَينا مَا عَلَينا ۔
امام حسين (ع) روز عاشورا جب حضرت مسلم بن عوسجه کے سرہانے پر آگئے ، یہ آیت شریف قرائت فرمائی جو امام عالی مقام کے یار و دوستوں کی وفاداری کی عکاسی کرتی ہے : مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَي نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً ؛ مومنین میں ایسے بھی مرد ِمیدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے ۔
اصحاب امام حسین علیہ السلام ولایت محورتھے، اسی ولایت محوری کہ اما م حسین نے دیکھ کر فرمایا تھا ’’لَا أَعْلَمُ أَصْحَابًا أَوْفَی وَلَا خَیرًا مِنْ أَصْحَابِی‘‘ قسم خدا کی میرے اصحاب سے بہتر میں نے کسی کہ نہیں دیکھا۔
ولایت محوری امام حسینؑ کے اصحاب کی اہم خصوصیتوں میں سے تھی کہ جس کی وجہ سے تمام اصحاب کسی بھی امر میں اپنے مولا کے فرمان کی مخالفت نہیں کرتے ہیں، ہمیشہ اپنے قائد کی اقتداء اور اس کا دفاع کرتے ہیں ۔ کربلا کے عظیم واقعہ میں ولایت محوری کے مصداق زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں کسی بھی صحابی نے سخت سےسخت مرحلے میں مولا کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کو نہیں توڑا اور میدان میں ڈٹے رہے۔
یہ کلمات اس خطبہ کے جواب میں ہیں جس میں سیّد شھدا امام حسین ؑ نے شب عاشورا اصحاب کے گردنوں سے اپنی بیعت اٹھا کر ان سب کو چلے جانے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا. تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ . ایک حسینی سپاہی محمد حضرمی کو اطلاع ملی کہ ان کا فرزند گرفتا ر ہو گیا ہے .امام حسین ؑ نے فر ما یا میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھالی ہے . تم اپنے بیٹے کی رہا ئی کی فکر کرو اور یہاں سے چلے جاؤ محمد نے جواب دیا . اگر میں آپ کو چھوڑ کر چلے جاؤں تو جنگلی درندے مجھے کھاجائیں ۔
عابس بن شعیب ایک موقعہ پر کہتے ہیں . مولا کوئی مخلوق روے زمین پر خوا ہ قریب ہو یا بعید میرے نزدیک آپ سے زیا دہ عزیز اور محبوب نہیں . اور اگرمیرے پاس یہ قدرت ہو تی کہ میں آپ سے ظلم اور قتل کو کسی ایسی چیز سے ٹال سکتا جو میری جان اور میرے خون سے زیادہ عزیز ہوتی . تو میں اسے بھی اس راہ میں قربان کردیتا :
شھادت ہے مطلوب ومقصود مومن / نہ مال غنیمت نہ کشور گشائی ( علامہ اقبال)